Monday, 3 August 2020

آوازیں ہم کو شہر عدم تک لے جاتی ہیں

آوازیں ہم کو شہرِ عدم تک لے جاتی ہیں

آوازیں آتی ہیں
انجانی سمتوں سے انجان آوازیں آتی ہیں
روشنیوں کے دائرے ٹوٹتے رہتے ہیں 
کہنے کو تو کتنا کچھ انسان کے دستِ بیش بہا میں ہے
کتنے سیاروں کی روشنیاں ان آنکھوں کی قید میں ہیں

کتنی دنیاؤں کی آوازیں ان کانوں کے قفل میں ہیں
پھر بھی انجان آوازیں آتی ہیں
رات کے خالی برتن میں یہ کیسا شور بھرا ہے
دن کی ٹانگیں کائنات کے رعب سے کانپتی رہتی ہیں
اس لاغر، کانپتی ٹانگوں والے دن سے کون امید کرے
کون اس دل کے چیختے ویرانوں کی گونج سنے
انجان آوازیں آتی ہیں
جیسے آفاق پہ کوئی دَیو دھاڑتا ہے
جس کی سانسیں سہمے سینوں میں پھنکارتی ہیں
جس کے دانت ان جسموں کے پاتال سے پیوستہ ہیں
جس کے پنجے پُشت کی گہرائی تک اتر گئے ہیں
آوازیں آتی ہیں
انجانی روشنیوں کے سائے
سورج کو گہنا دیتے ہیں
اور آوازوں کے تعاقب میں
ہم شہرِ عدم تک آ جاتے ہیں

زاہد امروز

No comments:

Post a Comment