دیدہ پرنم ہے کہ خود اشک سراپا ہوتا
قطرہ روتا ہے کہ اے کاش میں دریا ہوتا
جان دیتے بھی اگر عشق میں تو کیا ہوتا
تم پہ مرنے کے لیے پھر ہمیں جینا ہوتا
قدرتی امر تھا خیر ان پہ جو صدقے ہوا دل
کاش ان کی طرف سے بھی تقاضا ہوتا
ملتے جلتے ہیں سب آپس میں تری خاطر سے
تُو نہ ہوتا تو کوئی بھی نہ کسی کا ہوتا
دل کے ٹکڑوں میں بہم صلح نہ ہوتی ناطق
اگر اک تیرِ نظر کا نہ سہارا ہوتا
ناطق لکھنوی
No comments:
Post a Comment