Wednesday 25 November 2020

دیدہ پرنم ہے کہ خود اشک سراپا ہوتا

 دیدہ پرنم ہے کہ خود اشک سراپا ہوتا

قطرہ روتا ہے کہ اے کاش میں دریا ہوتا

جان دیتے بھی اگر عشق میں تو کیا ہوتا

تم پہ مرنے کے لیے پھر ہمیں جینا ہوتا

قدرتی امر تھا خیر ان پہ جو صدقے ہوا دل

کاش ان کی طرف سے بھی تقاضا ہوتا

ملتے جلتے ہیں سب آپس میں تری خاطر سے

تُو نہ ہوتا تو کوئی بھی نہ کسی کا ہوتا

دل کے ٹکڑوں میں بہم صلح نہ ہوتی ناطق

اگر اک تیرِ نظر کا نہ سہارا ہوتا


ناطق لکھنوی

No comments:

Post a Comment