Wednesday, 25 November 2020

آج اچانک پھر یہ کیسی خوشبو پھیلی یادوں کی

 آج اچانک پھر یہ کیسی خوشبو پھیلی یادوں کی

دل کو عادت چھوٹ چکی تھی مدت سے فریادوں کی

دیوانوں کا بھیس بنا لیں یا صورت شہزادوں کی

دور سے پہچانی جاتی ہے شکل ترے بربادوں کی

شرط شیریں کیا پوری ہو تیشہ و جرأت کچھ بھی نہیں

عشق و ہوس کے موڑ پہ یوں تو بھیڑ ہے اک فرہادوں کی

اب بھی ترے کوچے میں ہوائیں خاک اڑاتی پھرتی ہیں

باقی ہے یہ ایک روایت اب بھی ترے بربادوں کی

کوئی تری تصویر بنا کر لا نہ سکا خون دل سے

لگتی ہے ہر روز نمائش یوں تو نئے بہزادوں کی


عنوان چشتی

No comments:

Post a Comment