رزق جو مولا نے لکھا تھا ہمارا مِل گیا
لہر سے لہریں ملیں، موجوں سے دھارا مل گیا
آپ کی آنکھوں سے الفت کا اشارہ کیا ملا
"ڈُوبنے والے کو تنکے کا سہارا مل گیا"
لوگ، شمس و ماہ و انجم جھولیاں بھر کر گئے
ہم اسی میں گم کہ اک ٹوٹا ستارا مل گیا
مطمئن ہرگز نہیں کہ یار کے رخ کے لیے
حیثیت کیا چاند کی جو استعارہ مل گیا
ہم بہت مشکل سمجھتے تھے خدا ملنے کی بات
درد جب اوروں کا سینے میں اتارا، مل گیا
دل کو جس کے غم اٹھانے کی سدا حسرت رہی
شکر ہائے لاکھ اس کا درد سارا مل گیا
مبتلائے عشق کا ممکن نہ تھا کوئی علاج
یار کی آنکھوں میں جھانکا ہے تو چارا مل گیا
مدتوں سے کھوج میں تھے کس سے بانٹیں رنج و غم
اب کہیں جا کر وہ ہم سا غم کا مارا مل گیا
کاروبارِ عشق میں یارو فقیروں کے لیے
منفعت تو خیر کیا ہوتی، خسارا مل گیا
وقت کے دریا میں تب تھے بے سہارا، بے کنار
آپ جب سے مل گئے، گویا کنارا مل گیا
اب تو حسرت چاند (روٹی کا) پہنچ سے دور ہے
مدتوں کے بعد جا کر کوئی پارا مل گیا
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment