دیا ہے درس مجھے دل نے پھر نیا عاطر
رکھوں گا رستہ زمانے سے میں جدا عاطر
مجھے یقیں ہے وہ چیریں گے آسمانوں کو
گرے ہیں اشک غریبوں کے جا بجا عاطر
کبھی حقیر سمجھتا نہیں غریبوں کو
انہی کی شکل میں دیکھا کل خدا عاطر
یہ زہر سا جو بھرا ہے ہماری سانسوں میں
ہمارے دیس کو سانپوں نے ڈس لیا عاطر
ابھی نشہ سا ٹپکتا ہے میرے شعروں سے
وہ ایک جام جو تُو نے مجھے دیا عاطر
یہ سب کمال ہے تیرے حسین لہجے کا
بنایا تُو نے جو دشمن کو آشنا عاطر
کہا نہ کچھ بھی فقط دیکھتا رہا ہم کو
ہماری بات سنی، اور چل دیا عاطر
عطا عاطر
No comments:
Post a Comment