Thursday 26 November 2020

بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی

 بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی 

دل نہ ہو گا آرزو رہ جائے گی 

طاقتِ دیدار کتنی ہی سہی 

پھر بھی تیرے روبرو رہ جائے گی 

ڈھونڈنے والا ہی خود کھو جائے گا 

جستجو ہی جستجو رہ جائے گی

خونِ دل کو کچھ اگر توفیق ہو

چشمِ تر کی آبرو رہ جائے گی

بے محابا اس کو اے ناطق نہ دیکھ

آرزوئے گفتگو رہ جائے گی


ناطق لکھنوی

No comments:

Post a Comment