بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی
دل نہ ہو گا آرزو رہ جائے گی
طاقتِ دیدار کتنی ہی سہی
پھر بھی تیرے روبرو رہ جائے گی
ڈھونڈنے والا ہی خود کھو جائے گا
جستجو ہی جستجو رہ جائے گی
خونِ دل کو کچھ اگر توفیق ہو
چشمِ تر کی آبرو رہ جائے گی
بے محابا اس کو اے ناطق نہ دیکھ
آرزوئے گفتگو رہ جائے گی
ناطق لکھنوی
No comments:
Post a Comment