Thursday, 26 November 2020

عجیب تر ہے مرا تماشا میں آپ اپنا تماش بیں ہوں

 عجیب تر ہے مرا تماشا، میں آپ اپنا تماش بیں ہوں

خود اپنے اوپر عیاں بھی شاید کہیں کہیں ہوں کہیں نہیں ہوں

تُو کل جہانوں کا ربِ یکتا، میں ایک مٹی کا ادنیٰ پُتلا

تُو بندہ پرور میں فتنہ پرور تُو مالکِ کُل میں نکتہ چیں ہوں

اے عمرِ رفتہ! میں ایک مدت سے اپنے گاؤں نہیں گیا، پر

میں خالی بستر پہ باس بن کر وہیں پڑا ہوں وہیں مکیں ہوں

بدلتے موسم کا ہاتھ تھامے مجھے بھلانے کی کوششوں میں

اگر یہ موسم اداس کر دیں، تو جان لینا کہ میں یہیں ہوں

عجیب الجھن میں پڑ گیا ہوں میں آئینے سے سوال کر کے

وہ میرا چہرہ دکھا رہا ہے میں کہہ رہا ہوں یہ میں نہیں ہوں

تمہاری چشمِ کرم میں جاناں جہان بھر کے ہیں لوگ سارے

اگر نہیں ہوں تو میں نہیں ہوں، کہیں نہیں ہوں کہیں نہیں ہوں


نذر حسین ناز

No comments:

Post a Comment