سورج رستہ بھول گیا تھا
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر اور سستا کر بولا مجھ سے؛ آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا
پیلا پیلا دبلا پتلا، بیماری میں لپٹا چاند
جانے کتنی راتوں سے وہ جاگ رہا تھا
آنکھوں سے سرخی کی چادر جھانک رہی تھی
نیند اداسی پھانک رہی تھی
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے
رستے میں کچھ ریت کے ذرے آگ جلا کر سینک رہے تھے
ہم نے ان کو گیت سنائے
ہم تھوڑا سا آگے آئے
چلتے چلتے اک ٹیلے پہ آ نکلے ہم
پیاس کی شدت کا احساس ہوا تو سورج بولا؛ پانی
دشت کے پار اک جنگل ہے اور اس جنگل کی دوسری جانب
اک دریا بھی بہتا ہے
پیاس کے مارے ہم دونوں دریا پہ پہنچے
اپنی اپنی پیاس بجھائی
دریا سے کچھ باتیں بھی کیں
کافی ساری باتیں تھیں میں بھول گیا ہوں
خیر کہاں تھے؟ ہاں! دریا پر
ہم دونوں نے پیاس بجھائی
وقت کی باگیں جلدی جلدی کھینچی ہم نے
بھاگے بھاگے واپس آئے
گھر پہنچے تو صبح کا تارا دروازے پہ پہریدار بنا بیٹھا تھا
ہاتھوں میں تلوار اٹھائے
سورج لینے آیا تھا
نذر حسین ناز
No comments:
Post a Comment