Wednesday 25 November 2020

طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا

 طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا

کہ ایک سودا رہا جنس دل لٹانے کا

فریب خواب مرے راستے کو روک نہیں

کہ وقت شام ہے یہ غم کدے کو جانے کا

ترے وجود سے پہچان مجھ کو اپنی تھی

ترا یقین تھا مجھ کو یقیں زمانے کا

خراب عشق ہوں خود موت ہوں میں اپنے لیے

سکھا رہی ہوں ہنر خود کو دل جلانے کا

ہر ایک شاخ ستم سے میں پھول توڑتی ہوں

ہوا ہے شوق چمن زار غم بنانے کا

نشہ عجیب ہے اس جنگ بے ثمر کا مجھے

خمار خوب ہے خونِ خرد بہانے کا

شبِ وصال میں اک نقطۂ توقف ہوں

اور اک جنوں ہے اسے منزلوں کو پانے کا

دل تباہ کو بے دام بیچ دیتی ہوں

کہ کاروبار ہے یہ جنس غم کمانے کا

مجھے عزیز ہے بے احتیاطیٔ سادہ

نہ شوق ہے نہ ہنر اس کو آزمانے کا

قفس بدن کا مجھے کچھ مرا ثبوت نہیں

یہ طائرِ دل و جاں لوٹ کر نہ آنے کا


تنویر انجم

No comments:

Post a Comment