Wednesday, 25 November 2020

میری تقویم میں کیا حرف کا پھل ہے مرے دوست

 میری تقویم میں کیا حرف کا پھل ہے مرے دوست

میں پڑھوں اور تُو کہے کہ غزل ہے مرے دوست

حرف کندہ ہے محبت کا سرِ لوحِ ازل

یہ کدورت تو رویوں کا خلل ہے مرے دوست

محض نسبت ہی نہیں، دوہری نسبت ہے مجھے

آنکھ وہ جھیل ہے اور جھیل بھی ڈل ہے مرے دوست

میں الگ زاویے سے دیکھتا ہوں دنیا کو

کیا مرے مسئلے کا بھی کوئی حل ہے مرے دوست

کیا چُنوں تیرے علاوہ، اور اگر چُن بھی لوں

کیا یہاں سانس کا بھی کوئی بدل ہے مرے دوست

اس کے سر سے میں ابھی وار دوں صدیوں کا سکون

تیری قربت میں جو گزرا ہوا پَل ہے مرے دوست

چاہتا ہوں تُو رویے پہ ذرا غور کرے

ورنہ دنیا تو مکافاتِ عمل ہے مرے دوست

گردشِ وقت کا ساگر تجھے ادراک بھی ہے

آج تیرا تو کسی اور کا کل ہے مرے دوست


مسعود ساگر

No comments:

Post a Comment