میں نے کمرے میں جو تصویر لگائی ہوئی ہے
وہ تری یاد کی پنسل سے بنائی ہوئی ہے
برف میں دفن جہاں کی تھی محبت تم نے
میں نے مدت سے وہاں آگ جلائی ہوئی ہے
تم اسے بس مری آنکھوں کا حوالہ دینا
میں نے دریا کو ہر اک بات بتائی ہوئی ہے
پیڑ سے اس لیے لپٹی ہے سماعت میری
کچھ پرندوں نے وہاں بزم سجائی ہوئی ہے
دشتِ غربت کا فقط نام سنا ہے تم نے
میں نے اک عمر وہاں خاک اڑائی ہوئی ہے
مجھ سے مت پوچھو کہ کیوں بیچتا پھرتا ہوں چراغ
مجھ سے یہ پوچھو؛ کہ کیا کوئی کمائی ہوئی ہے؟
چاند روتا ہے وہاں بیٹھ کے شب بھر واصف
میں نے سورج کی جہاں لاش چھپائی ہوئی ہے
جبار واصف
No comments:
Post a Comment