کوئی مجنونِ میر بیٹھا ہے
سمجھو میرا وہ پیر بیٹھا ہے
وہ اگر مڑ کے دیکھ لے مجھ کو
پھر نشانے پہ تیر🠅 بیٹھا ہے
تیری شیریں نے خودکشی کر لی
تُو لبِ جوئے شِیر بیٹھا ہے
ہوں معطر کہ دل کے کعبہ میں
خوشبوؤں کا سفیر بیٹھا ہے
تم نے آنا ہے یا نہیں آنا
راستے پر فقیر بیٹھا ہے
اک تعفّن سا اٹھ رہا ہے یاں
کیا کوئی بے ضمیر بیٹھا ہے
سانپ کب کا نکل گیا خالد
پیٹتا ہے لکیر، بیٹھا ہے
خالد ندیم شانی
No comments:
Post a Comment