نگاہِ لطف کبھی گر وہ مستِ ناز کرے
نیاز مند کو عالم سے بے نیاز کرے
وہ سرنوشت جبیں پر بجا ہے ناز کرے
جو آستاں پہ تِرے سجدۂ نیاز کرے
نہ تیرے چاہنے والوں میں ہو یہ جنگ و جدل
اشارہ گر نہ تِری چشم فتنہ ساز کرے
بجھائیں پیاس کہاں جا کے تیرے مستانے
جو ساقیا در مے خانہ تو نہ باز کرے
جہاں میں شور ہے اور وہ نگار پردے میں
عجب ہو سیر جو وہ رخ سے پردہ باز کرے
نہیں وہ لذتِ آزارِ عشق سے آگاہ
ستم میں اور کرم میں جو امتیاز کرے
جو چاہے گرمیٔ ہنگامہ بزم دوراں میں
صدا بلند کرے اور زباں دراز کرے
جو بزمِ انس میں چاہے کہ شمعِ محفل ہو
تو دل میں عشق سے پیدا ذرا گداز کرے
انہیں کے حسن سے ہے گرم عشق کا بازار
دعا خدا سے ہے عمرِ بتاں دراز کرے
فسانہ گو سے کہو مختصر ہو قصۂ جم
حدیث گیسوئے جاناں ذرا دراز کرے
یہ سلسلۂ غمِ دوراں کا ہے ابد پیوند
سکونِ دل کا جو چاہے وہ ترک آز کرے
خدا کا نام بھی لو بازوؤں سے کام بھی لو
تو فکرِ کارِ خداوند کارساز کرے
ہوا و حرص سے ناظر رہے جو پاک نظر
تو ہمسری نہ حقیقت کی کیوں مجاز کرے
خوشی محمد ناظر
No comments:
Post a Comment