یہ حیوانوں کی بستی ہے
ستارے توڑ لاتے ہیں
خیالوں میں ہی ہم، لیکن
حقیقت میں دِیا اک بھی
جلا ہم کیوں نہیں سکتے
جو ہیں مظلوم ان کو ہم
نہیں کچھ اور دے سکتے
جنہیں انصاف ملنا تھا
دِلا ہم کیوں نہیں سکتے
یہاں انصاف کی سولی پہ
بس غربت ہی لٹکتی ہے
یہاں وعدے ہی وعدے ہیں
کیا کوئی تکمیل تک پہنچا
خزانہ کیوں غریبوں کا
کسی کی زنبیل تک پہنچا
دکھائے خواب تھے جس نے
وہ اب تعطیل تک پہنچا
یہاں پر حق غرباء کا
کہاں ترسیل تک پہنچا
تو ایسے معاشرے میں پھر
خدا کی فوج اترتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
عرفان بزمی
No comments:
Post a Comment