باعثِ ترکِ ملاقات بتاؤ تو سہی
چاہنے والا کوئی ہم سا دکھاؤ تو سہی
کیسی ہوتی ہے محبت نہیں معلوم تمہیں
ایک دو دن کہیں دل تم بھی لگاؤ تو سہی
بے وفائی کی ہے تہمت چلو مانا ہم نے
ہاں بھلا ہم سے ذرا آنکھ ملاؤ تو سہی
جان دے دوں گا مگر تم کو نہ جانے دوں گا
اٹھ کے پہلو سے بھلا تم مِرے جاؤ تو سہی
نہیں ملنے کی جو مرضی ہے نہ ملنا ہم سے
بات کرنا کہ نہ کرنا، مگر آؤ تو سہی
دیکھ لو جیتے ہیں یا مرتے ہیں مشتاقِ صدا
اپنی آواز ذرا ان کو سناؤ تو سہی
ہر طرح بگڑے ہوئے بیٹھے ہیں جانے کیلئے
آسماں آج کوئی بات بناؤ تو سہی
آسمان جاہ انجم
No comments:
Post a Comment