ہاتھ رکھا ہے اس نے گھاؤ پر
جیسے پانی پڑا الاؤ پر
میں ہوں اشکوں کے ایک دریا میں
آنکھ رکھ دی ہے اس بہاؤ پر
درد سارے خریدنے ہیں مجھے
آپ الجھے ہیں بھاؤ تاؤ پر
دل کی بازی میں ہار بیٹھی ہوں
زندگی تیرے پہلے داؤ پر
میں ہواؤں میں اڑنا چاہتی ہوں
پہلی فرصت میں تم بناؤ پر
ثمینہ ثاقب
No comments:
Post a Comment