Wednesday, 1 September 2021

ہاتھ رکھا ہے اس نے گھاؤ پر

 ہاتھ رکھا ہے اس نے گھاؤ پر

جیسے پانی پڑا الاؤ پر

میں ہوں اشکوں کے ایک دریا میں

آنکھ رکھ دی ہے اس بہاؤ پر

درد سارے خریدنے ہیں مجھے

آپ الجھے ہیں بھاؤ تاؤ پر

دل کی بازی میں ہار بیٹھی ہوں

زندگی تیرے پہلے داؤ پر

میں ہواؤں میں اڑنا چاہتی ہوں

پہلی فرصت میں تم بناؤ پر


ثمینہ ثاقب

No comments:

Post a Comment