یہ کس حساب سے آئی ہمارے حصے موت
تمام عمر قیامت، تمام رستے موت
کُھلا کہ واعظِ عیار غیر کا ہے رفیق
سو ہم تو شوقِ شہادت میں مر گئے بے موت
ہے میرے گرد مسلسل کسی کرم کا حصار
گزر رہی ہے مسلسل نظر بچا کے موت
یہ کون ہے کہ جو صحرا میں ڈھونڈتا ہے حیات
یہ کون ہے کہ جو شہروں میں بانٹتا ہے موت
نہ پوچھ ہم سے مکافاتِ کار کی امید
نصیبِ زیست ہوئی موت ماورائے موت
کیا جو ہم نے کبھی یونہی روز و شب کا حساب
کھلا کہ کچھ بھی نہیں زندگی سوائے موت
سخن بھی کیسے ہو آشوبِ شہر سے محفوظ
غزل ہے نوحہ نما اور ردیف تک ہے موت
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment