وہ مجھے معتبر نہ دیکھ سکا
اور پھر عمر بھر نہ دیکھ سکا
اس کو منزل تو دِکھ گئی فوراً
پر وہ دور سفر نہ دیکھ سکا
کیا بتاؤں ستم ظریف کا حال
وہ مجھے اک نظر نہ دیکھ سکا
تجھ کو کیسے دکھائی دیتا میں
تُو مجھے اس قدر نہ دیکھ سکا
وہ مجھے بار بار اُڑاتا رہا
اور مِرے خستہ پر نہ دیکھ سکا
میرے مالک نے بھر دیا کاسہ
وہ مجھے در بدر نہ دیکھ سکا
سب کے سب دیکھتے رہے تصویر
کوئی دیوار پر نہ دیکھ سکا
تُو بھی دیکھ آ کے حالت احمد
اور اقرار کر نہ دیکھ سکا
احمد طارق
No comments:
Post a Comment