چھیڑ مت چشم نم فقیروں کو
عشق میں مست دم فقیروں کو
یا الٰہی! اب اس زمانے میں
کون پوچھے گا ہم فقیروں کو
دِیں کو دنیا میں عام کرنے کا
لگ گیا ایک غم فقیروں کو
نئی تہذیب کے دِوانوں پر
آہ آتی ہے ہم فقیروں کو
گرچہ انصاف چاہیے ثاقب
تھامنے دو قلم فقیروں کو
اقبال ثاقب
No comments:
Post a Comment