دعائے دستِ فضیلت سے سر کی رونق ہے
ہمارے گھر کے بزرگوں سے گھر کی رونق ہے
در و دیوار سے کِلکاریاں نکلتی ہوئیں
ابھی بھی صحن میں بوڑھے شجر کی رونق ہے
ہری بھری ہے یہ چوکھٹ کسی کے قدموں سے
ہماری نیم شبی بھی سحر کی رونق ہے
زمانہ دیکھ چکا ہے جلال سورج کا
یہ شام سرمۂ نور نظر کی رونق ہے
سکوت شب بھی ابھی تک مراقبے میں ہے
ہماری چھت کسی گرد سفر کی رونق ہے
یہ بسترے کی حرارت یہ ڈولتی زنجیر
کواڑ تحفۂ باب اثر کی رونق ہے
اشہد کریم الفت
No comments:
Post a Comment