گلے سے لگ کر گِلہ گزاری میں شب گزاری
بچھڑنے والوں نے بے قراری میں شب گزاری
جو مر گئے ان کو دفن کرنے میں دن گزارا
جو بچ گئے ان کی غمگساری میں شب گزاری
دِکھا رہا تھا میں اپنی مرضی کے خواب اس کو
جو سچ کہوں تو فریب کاری میں شب گزاری
کسی نے بستر کی سلوٹوں میں قرار پایا
کسی نے بُوہے، کسی نے باری میں شب گزاری
وگرنہ میں تو گزرنے والا تھا زندگی سے
یقین مانو، تمہاری یاری میں شب گزاری
تو کیا یہ سورج جدیدیت کا خفا رہے گا
اگر روایت کی پاسداری میں شب گزاری
تیمور ذوالفقار
No comments:
Post a Comment