سفر بخیر ہو انجام تک پہنچ جائیں
خدا کرے یہ قدم شام تک پہنچ جائیں
سخن کا سارا سفر اس لیے کیا میں نے
کہ میرے ہونٹ تِرے نام تک پہنچ جائیں
نئے جنوں کی اذیت بھی محترم ہے مجھے
گزشتہ زخم تو آرام تک پہنچ جائیں
مکانِ حسن سے باہر بھی دیکھ، ایسا نہ ہو
شریف لوگ در و بام تک پہنچ جائیں
خبر نہیں مِری آواز پھر سنے کوئی
جنہیں پہنچنا ہے کہرام تک پہنچ جائیں
حسین رات کا مہتاب ڈوب جانے سے قبل
ستارے گردشِ ایام تک پہنچ جائیں
خدا کے بندے خدا تک پہنچ گئے ہیں علی
جو رام والے ہیں وہ رام تک پہنچ جائیں
علی شیران
No comments:
Post a Comment