کڑی دھوپ میں سائباں کوئی تو ہو
کوئی ہم نشیں، مہرباں کوئی تو ہو
غموں کے فسانے، خوشی کے ترانے
سنائیں کسے راز داں کوئی تو ہو
کہاں سے ملے گی دوا دردِ دل کی
کوئی چارہ گر، آستاں کوئی تو ہو
رُتوں کے بدلتے ہی لوٹیں گے پنچھی
چمن میں بچا آشیاں کوئی تو ہو
لگا لیں گلے موت کو بھی خوشی سے
جو مرنے پہ چشمِ رواں کوئی تو ہو
بھٹکتے پھریں گے کہاں تک جنوں میں
نئی منزلوں کا نشاں کوئی تو ہو
کہاں لے چلے وقت کے ہم کو دھارے
جہاں جا رکیں گے وہاں کوئی تو ہو
نگاہیں اٹھائیں مگر کس کی جانب
زمیں پر جھکا آسماں کوئی تو ہو
زرقا مفتی
No comments:
Post a Comment