Friday 24 September 2021

آ جا دکھا کہ تجھ میں ہے کس بات کا گھمنڈ

 آ جا، دکھا، کہ تجھ میں ہے کس بات کا گھمنڈ

زلفیں بکھیر، توڑ دے اب رات کا گھمنڈ

تحفے میں جب سے دی ہے مجھے اس نے اک گھڑی

اس دن سے بڑھ گیا ہے مِرے ہاتھ کا گھمنڈ

کومل ہتھیلیوں سے اُچھالا ہے اس نے آب

اس واسطے ہی ٹُوٹا ہے برسات کا گھمنڈ

سب آن بان شان ہوا وصل کی ہوئی

دیکھا جو انتظار کے لمحات کا گھمنڈ

پھولے ہیں منہ سارے رقیبوں کے اس لیے

ہے میرے پاس اس سے ملاقات کا گھمنڈ

اخلاص، پیار، سادہ دلی اور بھروسے پر

اب تک کھڑا ہے ڈھیروں مضافات کا گھمنڈ

تیور بتا رہے ہیں غزل ہے بلال کی

مصرعے دکھا رہے ہیں خیالات کا گھمنڈ


بلال صابر

No comments:

Post a Comment