Thursday, 2 September 2021

ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی

ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی

کھوکھلی تہذیب کی فرزانگی ڈستی رہی

شعلۂ نفرت تو بھڑکا ایک لمحہ کے لیے

مُدتوں پھر شہر کو اک تیرگی ڈستی رہی

موت کی ناگن سے اب ہرگز وہ ڈر سکتا نہیں

جس کو ساری عمر خُود یہ زندگی ڈستی رہی

میں نہ جانے کتنے جنموں کا ہوں پیاسا دوستو

رہ کے دریا میں بھی مجھ کو تشنگی ڈستی رہی

آپ کے ہونٹوں پہ جو مُدت سے ہے چھائی ہوئی

درد میں ڈُوبی ہوئی وہ خامشی ڈستی رہی

ایک تم ہو دُشمنی بھی راس آئی ہے جسے

اور اک میں ہوں کہ جس کو دوستی ڈستی رہی

ہر گھڑی چہرے پہ جو چہرے لگاتا ہی رہا

عمر بھر اس کو اسد بے چہرگی ڈستی رہی


اسد رضا

دہلی، بھارت

No comments:

Post a Comment