Friday, 3 September 2021

آ جاتا ہے خود پاس بلانا نہیں پڑتا

 آ جاتا ہے خود پاس، بُلانا نہیں پڑتا

ملنے کے لیے ہاتھ بڑھانا نہیں پڑتا

کچھ ایسی سہولت سے مکیں دل میں ہوا وہ

مجھ کو بھی مِری ذات سے جانا نہیں پڑتا

یہ خاص رعایت ہے مِرے دیس میں اب تو

غم مفت میں ملتا ہے، کمانا نہیں پڑتا

اِس شہر سے اُس شہر تلک سیدھی سڑک ہے

فی الحال تو رستے میں زمانہ نہیں پڑتا

اب لوہا اُگاتے ہیں درختوں کی جگہ ہم

کوئل کو بھی اب شور مچانا نہیں پڑتا


صائمہ آفتاب

No comments:

Post a Comment