اشارے مدتوں سے کر رہا ہے
ابھی تک صاف کہتے ڈر رہا ہے
بچانا چاہتا ہے وہ سبھی کو
بہت مرنے کی کوشش کر رہا ہے
سمندر تک رسائی کے لیے وہ
زمانے بھر کا پانی بھر رہا ہے
کہیں کچھ ہے پرانے خواب جیسا
مری آنکھوں سے ظالم ڈر رہا ہے
زمانے بھر کو ہے امید اسی سے
وہ ناامید ایسا کر رہا ہے
ظہیر رحمتی
No comments:
Post a Comment