سب کہ رہے ہیں دوش تو سارا ہوا کا تھا
اس بار مستحق دیا خود سزا کا تھا
اب چل بسا تو روتا ہے تو نامراد کیوں
تُو نے کہا تھا شخص وہ راہِ فنا کا تھا
جس نے ہے بہتے پانی پہ راستہ بنا دیا
موسٰی تھا اس کا نام وہ بندہ خدا کا تھا
اس پر شباب آنا بڑا ہی محال ہے
مرجھا گیا جو پھول وہ دور قضا کا تھا
اک رنگ یہ بھی دیکھا گیا اس جہان میں
محتاج اک امر فقیری دعا کا تھا
اب خلفشار پھیلا تو روتا ہے کس لیے
تو صدر محترم بھی تو بزم وبا کا تھا
مطلع تو کافی لوگوں نے اچھا لکھا مگر
سب سے الگ خیال کا مقطع رضا کا تھا
رضا حیدری
No comments:
Post a Comment