نہ تم ہمارے رہے نہ ہم تمہارے رہے
نہ دید تیری رہی، نہ وہ نظارے رہے
نہ آسِ وصل رہی، نہ پیاسِ عشق رہی
رہے تو بس تِری یاد کے سہارے رہے
وہ خوبرو تِرے جیسا دنیا میں نہ ہو گا
وہ سامنے تِرے چھپ کے چاند تارے رہے
رکھا نہ تُو نے مِری دو باتوں کا وہ بھرم
یوں دل میں جلتے وہ آگ کے شرارے رہے
امیر! جس نے بھی اختیار کی یہ رہِ عشق
وہ ان کی زندگی میں بہت خسارے رہے
امیر فاروق آبادی
No comments:
Post a Comment