Sunday, 17 July 2022

مصور کا ہاتھ اس کے جسم سے کٹ کر گر پڑا تھا

 مصور کا ہاتھ


مشینوں سے اسے نفرت تھی 

لیکن کارخانے میں 

مشینوں کے سوا 

ان کا کوئی ہمدم نہ ساتھی تھا 

وہ خوابوں کا مصور جس کے خوابوں میں عموماً 

تلخیاں بھی رنگ بھرتی تھیں 

کبھی ماں کی دوا بہنوں کی شادی 

کبھی یاد وطن کی چاشنی وہسکی کی کڑواہٹ 

تو اس کے اپنے اندر کا مصور 

اس سے کہتا تھا؛ 

میں قیدی ہوں، مجھے باہر نکالو 

مجھے اظہار کے سانچوں میں رکھ کر 

لباسِ شام پہنا دو 

سحر کی تازگی لے کر مجھے رنگوں سے نہلا دو 

مگر اک دن اسے کوئے ملامت سے نکلنا تھا 

مشینیں چل رہی تھیں اور اس کا ہاتھ 

اس کے جسم سے کٹ کر 

زمیں پر گر پڑا تھا 

وہیں ماں کی دوا بہنوں کی مہندی 

اور بیمہ کی رقم لہو میں تر بہ تر تھی 


اطہر راز

No comments:

Post a Comment