مصور کا ہاتھ
مشینوں سے اسے نفرت تھی
لیکن کارخانے میں
مشینوں کے سوا
ان کا کوئی ہمدم نہ ساتھی تھا
وہ خوابوں کا مصور جس کے خوابوں میں عموماً
تلخیاں بھی رنگ بھرتی تھیں
کبھی ماں کی دوا بہنوں کی شادی
کبھی یاد وطن کی چاشنی وہسکی کی کڑواہٹ
تو اس کے اپنے اندر کا مصور
اس سے کہتا تھا؛
میں قیدی ہوں، مجھے باہر نکالو
مجھے اظہار کے سانچوں میں رکھ کر
لباسِ شام پہنا دو
سحر کی تازگی لے کر مجھے رنگوں سے نہلا دو
مگر اک دن اسے کوئے ملامت سے نکلنا تھا
مشینیں چل رہی تھیں اور اس کا ہاتھ
اس کے جسم سے کٹ کر
زمیں پر گر پڑا تھا
وہیں ماں کی دوا بہنوں کی مہندی
اور بیمہ کی رقم لہو میں تر بہ تر تھی
اطہر راز
No comments:
Post a Comment