Tuesday, 19 July 2022

شفق زادی عجب رنگوں میں گھر کر رہ گئی ہو گی

 شفق زادی

وہ لڑکی جس کی قربت کی تمنا میں

کئی اوجھل مناظر خود کو 

اس کی بارگہ میں پیش کرتے تھے

سنا ہے آج کل

نزدیک کا چشمہ لگاتی ہے

وہ جس کی مہربانی سے 

کبھی اس شہر میں قیمت بڑھا کرتی تھی پھولوں کی

ترس جاتے ہیں اس کے ہاتھ اب 

گجرے پہنے کو

وہ جس کی بے نیازی سے

کبھی اس شہر کے لوگوں کا کاروبار چلتا تھا

سنا ہے اب وہ اشیا کی 

خریداری میں نرخوں پر 

دکانداروں سے لمبی بحث کرتی ہے

وہ اک  لڑکی 

جو عکس آلود آئینے سے بھی پرہیز کرتی تھی

سنا ہے اب محلے میں

 کسی سستے

بیو ٹی پارلر پر کام کرتی ہے

وہ جس کی 

خوش کلامی پر

سخن ہوتا تھا شب بھر

 شہر کے سب قہوہ خانوں میں

سنا ہے  خامشی کو 

آج کل اظہار پر ترجیح دیتی ہے

وہ اک  لڑکی جو سر تا پا 

کبھی پندار کا مینار ہوتی تھی

زرا سے زلزلے سے

ڈھ گئی ہو گی

شفق زادی عجب رنگوں میں گھر کر رہ گئی ہو گی


اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment