شفق زادی
وہ لڑکی جس کی قربت کی تمنا میں
کئی اوجھل مناظر خود کو
اس کی بارگہ میں پیش کرتے تھے
سنا ہے آج کل
نزدیک کا چشمہ لگاتی ہے
وہ جس کی مہربانی سے
کبھی اس شہر میں قیمت بڑھا کرتی تھی پھولوں کی
ترس جاتے ہیں اس کے ہاتھ اب
گجرے پہنے کو
وہ جس کی بے نیازی سے
کبھی اس شہر کے لوگوں کا کاروبار چلتا تھا
سنا ہے اب وہ اشیا کی
خریداری میں نرخوں پر
دکانداروں سے لمبی بحث کرتی ہے
وہ اک لڑکی
جو عکس آلود آئینے سے بھی پرہیز کرتی تھی
سنا ہے اب محلے میں
کسی سستے
بیو ٹی پارلر پر کام کرتی ہے
وہ جس کی
خوش کلامی پر
سخن ہوتا تھا شب بھر
شہر کے سب قہوہ خانوں میں
سنا ہے خامشی کو
آج کل اظہار پر ترجیح دیتی ہے
وہ اک لڑکی جو سر تا پا
کبھی پندار کا مینار ہوتی تھی
زرا سے زلزلے سے
ڈھ گئی ہو گی
شفق زادی عجب رنگوں میں گھر کر رہ گئی ہو گی
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment