Tuesday 19 July 2022

مدت سے مری آنکھ میں پانی بھی نہیں یے

 مدت سے مِری آنکھ میں پانی بھی نہیں یے

رونے کے لیے کوئی کہانی بھی نہیں ہے

میں پانی کا برتن لیے کیوں بھاگ رہا ہوں

جب میں نے کوئی آگ بجھانی بھی نہیں ہے

دروازے پہ دستک لیے، بیٹھا ہے بڑھاپا

اور کمرے میں بچپن بھی جوانی بھی نہیں ہے

کس طرح سے ڈھونڈوں گا تجھے بھیڑ میں کھو کر

تیری تو مِرے پاس نشانی بھی نہیں یے

کل تک وہ مرے پاس یہیں بیٹھا ہوا تھا

یہ بات کوئی اتنی پرانی بھی نہیں ہے

بستر پہ پڑا خواب ابھی جاگ رہا ہے

اب نیند مرے کمرے میں آنی بھی نہیں ہے

لہجے نے ہر اک راز اگل دینا ہے طاہر

آنکھوں نے کوئی بات چھپانی بھی نہیں ہے


سلیم طاہر

No comments:

Post a Comment