زنگ سار
کئی دن سے دھواں اڑتا ہے سوئے رہگزار دل
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا لمسِ گریزاں
اعتبارِ سوختہ ساماں
ہماری آنکھ کے دالان سے
جس وقت ہجرت کر رہا تھا نا
تو کتنے واہمے تھے جو
ہمارے ساتھ چلتے تھے
سر ہجراں، پرانی یاد کا روشن، اکیلا اور چمکتا چاند
ان دو نقرئی آنکھوں میں مدہم ہی نہ ہو جائے
یہ ڈر آخر سمے کی کوکھ سے پھوٹا
تمہارے لفظ ریزوں سے پھسلتے روگ
سکھ کے عکس
لرزاں ہاتھ کی عسرت زدہ اور
گیلی پوروں پر کبھی جمنے نہیں دیں گے
سو اپنی جھیل ہوتی آنکھ کی
بے سکت پتلی پہ لازم ہے
کہ یہ دکھ رو لیا جائے
آئلہ طاہر
No comments:
Post a Comment