تم کو لگتا ہے محبت سے نکل آئے تھے
ہم تو یک طرفہ اذیت سے نکل آئے تھے
کتنا پُر سوز تھا منظر وہ جدائی والا
اشک آنکھوں کی حراست سے نکل آئے تھے
میں نکل آیا تھا کچھ خوابوں کے پیچھے پیچھے
اور پھر خواب حقیقت سے نکل آئے تھے
میرے احباب تو واقف تھے مِری حالت سے
آسماں بوس عمارت سے نکل آئے تھے
اس نے اعلان کیا کوزہ گری کا تو منیر
کتنے چہرے تھے جو حسرت سے نکل آئے تھے
منیر انجم
No comments:
Post a Comment