پنکھڑی پھول جام سب کے سب
استعارے ہیں ان کے لب کے سب
ہے خسارہ پلک جھپکنے میں
اس کے نقش ایسے ہیں غضب کے سب
میری اردو زبان کے جیسے
اس کے انداز ہیں ادب کے سب
مر گئے تیری بے رخی سے یار
دل کے ارمان دل میں دب کے سب
یار کی کتھئی دو آنکھوں میں
نشے ہیں دُخترِ عنب کے سب
حشر میں ساتھ دے نہیں سکتے
رشتے جو ہیں نسب حسب کے سب
چھوڑ بیٹھے ہیں آج کل ہم لوگ
نالے دلسوز جو تھے شب کے سب
گر تُو طالب ہے قُرب کا اس کے
آزما لے ہُنر طلب کے سب
متین طالب
No comments:
Post a Comment