Tuesday, 19 July 2022

پنکھڑی پھول جام سب کے سب

 پنکھڑی پھول جام سب کے سب

استعارے ہیں ان کے لب کے سب

ہے خسارہ پلک جھپکنے میں

اس کے نقش ایسے ہیں غضب کے سب

میری اردو زبان کے جیسے

اس کے انداز ہیں ادب کے سب

مر گئے تیری بے رخی سے یار

دل کے ارمان دل میں دب کے سب

یار کی کتھئی دو آنکھوں میں

نشے ہیں دُخترِ عنب کے سب

حشر میں ساتھ دے نہیں سکتے

رشتے جو ہیں نسب حسب کے سب

چھوڑ بیٹھے ہیں آج کل ہم لوگ

نالے دلسوز جو تھے شب کے سب

گر تُو طالب ہے قُرب کا اس کے

آزما لے ہُنر طلب کے سب


متین طالب

No comments:

Post a Comment