جینے کے ان کے ساتھ بہانے چلے گئے
اٹھ کر گئے وہ یوں کہ زمانے چلے گئے
احساس جن کے ہونے سے ہونے کا تھا کبھی
ان بے گھروں کے سارے ٹھکانے چلے گئے
کرنا یہاں پہ کیا تھا، مگر کر رہے ہیں کیا
ہم کیا کریں کہ اپنے سیانے چلے گئے
جو پاس تھے تو قصہ بھی کیا دلفریب تھا
کھولی جو اب کتاب فسانے چلے گئے
رونق تو چار سو ہے مگر مفلسوں کو کیا
خالی ہیں ان کی جیبیں خزانے چلے گئے
تپتا ہے آفتاب تو جلتی ہے یہ زمین
موسم بھی ان کے پیچھے سہانے چلے گئے
حاسد سمجھ نہ لیجے، یونہی سوچتا ہوں میں
اب وہ نہ جانے کس کو رجھانے چلے گئے
ابرک! محبتوں میں نہ دعوے کیا کریں
کیوں خود نہ آپ ان کو منانے چلے گئے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment