خلا رہ جاتے ہیں
جب رات نیند میں بسر ہو جائے
اور دن کاموں کی تکمیل کے پیچھے دوڑتے ہوئے
شام کی چائے کسی انتظار میں ٹھنڈی ہو جائے
جنم دن مانوس آوازوں کو سنے بغیر گزر جائیں
جب سفر خاموشی میں کٹنے لگیں
اور ہم خاموشی نظم نہ کر پائیں
خلا رہ جاتے ہیں
جب شیلف نئی کتابوں سے بھرتے جائیں
اور کتابیں گرد سے
نئے رنج دل میں خیمہ لگا لیں
اور مصرعہ کہنے کی فرصت نہ ملے
دور جاتی ریل کو دیکھ کر کوئی ہاتھ نہ ہلائے
رات کے بیچ کہیں سے بانسری کی لے نہ اٹھے
لب مسکراتے رہیں اور منظر دھندلا جائیں
خلا رہ جاتے ہیں
جب شاید اور کاش کی بحث ذہن کو شور سے بھر دے
سندیسے سکرین پر ابھرتے ابھرتے
کہیں راستے میں کھو جائیں
لفظوں کو آواز کا ملبوس میسر نہ آئے
جب دل ایک طلب کو حسرت بنتے
چپ چاپ دیکھتا رہے
اور دور کے باسیوں کا دیس ہمیشہ دور ہی رہے
خلا رہ جاتے ہیں
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment