Tuesday, 19 July 2022

جب رات نیند میں بسر ہو جائے

  خلا رہ جاتے ہیں


جب رات نیند میں بسر ہو جائے

اور دن کاموں کی تکمیل کے پیچھے دوڑتے ہوئے

شام کی چائے کسی انتظار میں ٹھنڈی ہو جائے

جنم دن مانوس آوازوں کو سنے بغیر گزر جائیں

جب سفر خاموشی میں کٹنے لگیں

اور ہم خاموشی نظم نہ کر پائیں

خلا رہ جاتے ہیں

جب شیلف نئی کتابوں سے بھرتے جائیں 

اور کتابیں گرد سے

نئے رنج دل میں خیمہ لگا لیں

اور مصرعہ کہنے کی فرصت نہ ملے

دور جاتی ریل کو دیکھ کر کوئی ہاتھ نہ ہلائے

رات کے بیچ کہیں سے بانسری کی لے نہ اٹھے

لب مسکراتے رہیں اور منظر دھندلا جائیں

خلا رہ جاتے ہیں

جب شاید اور کاش کی بحث ذہن کو شور سے بھر دے

سندیسے سکرین پر ابھرتے ابھرتے 

کہیں راستے میں کھو جائیں

لفظوں کو آواز کا ملبوس میسر نہ آئے

جب دل ایک طلب کو حسرت بنتے

چپ چاپ دیکھتا رہے

اور دور کے باسیوں کا دیس ہمیشہ دور ہی رہے

خلا رہ جاتے ہیں


سیماب ظفر 

No comments:

Post a Comment