پہنچ گیا وہ جب ہوس کے آخری مقام پر
جھپٹ پڑا حلال زادہ خوبرو حرام پر
یہ کس کے پاس مے کدوں کا انتظام آ گیا
شراب رِند مانگنے لگے خدا کے نام پر
ادھر طوائفوں میں کھو گیا ہے شاہ سلطنت
ادھر مری پڑی ہیں شاہزادیاں غلام پر
تمام دوست پنسلوں سے لیس ہو کے آئے تھے
سبھی نے حاشیہ لگا دیا ہے میرے نام پر
یہ سوچ کر کہ گھر کے پنچھیوں کو کیا جواب دوں
نہیں گیا شکاریوں کی دعوت طعام پر
ہم اس کی آنکھیں چومنے کے جرم میں سزا ہوئے
جو آنکھ رکھ کے بیٹھا ہے ہمارے صبح و شام پر
ٹپک رہی ہے روشنی حسین خد و خال سے
وہ رات اوڑھ کے نکل رہی ہے اپنے کام پر
وہ داد تک وصول کر سکا نہ اپنے کرب کی
کہانی کار مر گیا پہنچ کے اختتام پر
راکب مختار
No comments:
Post a Comment