Sunday, 17 July 2022

کہانی اک سنانی ہے

کہانی اک سُنانی ہے

جو بیتی ہے بتانی ہے

صحیفہ دردِ پیہم کا

نہیں لِکھا، زبانی ہے

ضروری بات کرنی تھی

اگرچہ کچھ پُرانی ہے

سرِ بازار بیٹھے ہیں

فقط اتنی کہانی ہے

مُقدر کے مزاروں پر

نئی چادر بِچھانی ہے

کِسے سمجھائیں گے جا کر

بڑی مُبہم کہانی ہے

محبت کر تو بیٹھے ہیں

کہو کیسے نبھانی ہے

بڑی تاریک ہے یہ شب

دِیے کی لَو بڑھانی ہے

ہمیں احساس کرنا ہے

ہمیں ڈھارس بندھانی ہے

مداوا ہے اُسی کے پاس

اُسی سے لَو لگانی ہے

شکیل اس شہرِ ظُلمت میں

اُمیدِ نَو جگانی ہے


شکیل خورشید

No comments:

Post a Comment