میں سونا چاہتا ہوں
میں واپس اپنے گمشدہ خواب
کی ناؤ میں
سونا چاہتا ہوں
مری ہوئی مچھلیوں جیسی
تیز شر انگیز مہک کے
زیر اثر
ہوا یوں کہ میں نے اپنے بدن پر
گیلی لذیذ انگلیوں کو
رینگتے محسوس کیا
وہ دو خوب صورت ہاتھ تھے
مرجانی پتھر سے تراشیدہ
کسی جادوئی خیال جیسی
کنواری لاش
میرے پہلو میں
اچانک بیداری
بنا کچھ سوچے
میں رات کی ندی میں کود گیا
ساحل کی سمت
مسلسل تیرتا ہوا
جہاں گیلی ریت پر
اداس کچھوے
آنے والے زمانوں کے
انڈے دفن کر کے
واپسی کے سفر پر
رینگتے ہیں
مجھے اسپتالوں میں بتایا گیا
میں لا علاج ہوں
مجھے میرے آخری پل تک
اداس کچھووں کے پیروں کی
بے آواز آہٹ
سونے نہیں دے گی
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment