جانے کے بعد اپنی نشانی کو کھا گیا
کیسا عجیب شخص تھا پانی کو کھا گیا
یہ شک حقیقتوں میں محبت کی موت ہے
دیمک لگا تو لکڑی پرانی کو کھا گیا
ورنہ ہم ایک اور ہی لہجے کا شعر تھے
ظالم سماج مصرعِ ثانی کو کھا گیا
اک بیل کھا گئی کسی سرسبز پیڑ کو
کردار ایک پوری کہانی کو کھا گیا
یہ شخص تیز تیز جو چلتا ہے وقت سے
دریا کی تیس سالہ روانی کو کھا گیا
کوئی خیال پھر مِری سگریٹ کو پی گیا
کوئی خیال شام سہانی کو کھا گیا
فکرِ معاش تھا یا محبت کسی کی تھی
کوئی تو ہے جو میری جوانی کو کھا گیا
پہلے مجھے بتاتا رہا زندگی ہے کیا
پھر میری زندگی کے معانی کو کھا گیا
اک بھیڑیا قریب جو رہتا تھا تاڑ میں
آخر، غریب باپ کی رانی کو کھا گیا
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment