Friday, 1 July 2022

جانے کے بعد اپنی نشانی کو کھا گیا

 جانے کے بعد اپنی نشانی کو کھا گیا

کیسا عجیب شخص تھا پانی کو کھا گیا

یہ شک حقیقتوں میں محبت کی موت ہے

دیمک لگا تو لکڑی پرانی کو کھا گیا

ورنہ ہم ایک اور ہی لہجے کا شعر تھے

ظالم سماج مصرعِ ثانی کو کھا گیا

اک بیل کھا گئی کسی سرسبز پیڑ کو

کردار ایک پوری کہانی کو کھا گیا

یہ شخص تیز تیز جو چلتا ہے وقت سے

دریا کی تیس سالہ روانی کو کھا گیا

کوئی خیال پھر مِری سگریٹ کو پی گیا

کوئی خیال شام سہانی کو کھا گیا

فکرِ معاش تھا یا محبت کسی کی تھی

کوئی تو ہے جو میری جوانی کو کھا گیا

پہلے مجھے بتاتا رہا زندگی ہے کیا

پھر میری زندگی کے معانی کو کھا گیا

اک بھیڑیا قریب جو رہتا تھا تاڑ میں

آخر، غریب باپ کی رانی کو کھا گیا


ندیم راجہ

No comments:

Post a Comment