Saturday 16 July 2022

محبت فرض تھوڑی ہے

 محبت فرض تھوڑی ہے

تُو نے کبھی 

یخ بستہ فرش پر

ایڑیاں رگڑتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا ہے

کبھی کسی سرد شیشے سے لگ کر 

آٸی۔ سی۔ یو میں پڑی زرد محبت کو سہا ہو

کسی یاد سے جِھڑکیاں پڑی ہیں کبھی

تمہیں پتہ ہے

دعاٸیں ہونٹوں سے ٹوٹ گریں تو

کسی دھاگے میں پِروئی نہیں جا سکتیں

جانتے ہو

آخری ہچکی کی آواز کسی قدر بھیانک ہوتی ہے

کبھی سنی ہے؟

سنا ہے رات ڈر کے مارے

پھٹی آنکھیں لیے سڑکوں پر دوڑتی ہے

مگر فاصلہ طے نہیں ہوتا

دور کسی کونے سے آتی ہوئی

سسکیوں کی آواز

کسی اجاڑ مسجد میں 

دی جانے والی صدا

”الصلوة خیر من النوم “

جیسی ہوتی ہے

جو بہرے دلوں کو سنائی نہیں دیتی

چمگادڑ نوحہ کناں ہیں

سبھی اندھے ہیں

کوٸی اندھیرے میں دیکھ ہی نہیں پاتا

دلفگار موسم تتلیوں سے پر نوچ رہے ہیں

اور تم

تم محبت کی رٹ لگائے ہوئے ہو

دلا کیوں ضد پہ اڑا ہے

محبت فرض تھوڑی ہے


سجل احمد

No comments:

Post a Comment