جب دل نے آبیاری کو مانگا ذرا خراج
آنکھوں نے بڑھ کے آب رواں کا دیا خراج
حسن و مہک چمن میں سجانے کے واسطے
گل سے مگس نے خونِ جگر کا لیا خراج
حصے میں فصل کچھ ہی ملی ہے کسان کو
پہلے زمیندار کے گھر کا کٹا خراج
صحرا میں اک سراب چلاتا رہا مجھے
میں تھک گیا تو جان کا لے کر ٹلا خراج
چاندی سے بال، جُھریاں ہیں چہرے پہ ان گنت
اے زندگی!! عجیب رہا ہے تِرا خراج
پھر گھونٹ گھونٹ جام سے پایا سکونِ دل
ساقی کے ہاتھ ہوش و خرد کا دھرا خراج
روئیں گے اب لپٹ کے سبھی جسم سے عطا
مہنگا کہاں ہے اس کے لیے روح کا خراج
عطاءالمصطفیٰ
No comments:
Post a Comment