Saturday 16 July 2022

شہر کی رسم ہے پرانی وہی

 شہر کی رسم ہے پرانی وہی

سازشیں تازہ ہیں کہانی وہی

درد کے موسموں سے کیا امید

سب بلائیں ہیں آسمانی وہی

پھر سے کھینچو حفاظتوں کے حصار

پھر ہے دریاؤں کی روانی وہی

ہم فقیروں کے حوصلے دیکھو

زخم جتنے ہوں سرگرانی وہی

سارے آثار ہیں جدائی کے

سُرمئی شام ہے سہانی وہی

خار بوئے تو زخم پالیں گے

وقت دہرائے گا کہانی وہی

یوں تو صدیاں گزر گئیں قیصر

دل کے صدمے تِری جوانی وہی


قیصر عباس

No comments:

Post a Comment