کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے
خود سے نہیں اترنے دیا چاک نے مجھے
موج ہوا میں تیرتا پھرتا تھا میں کہیں
پھر یوں ہوا کہ کھینچ لیا خاک نے مجھے
میں روشنی میں آ کے پشیماں بہت ہوا
عریاں کیا ہے عشق کی پوشاک نے مجھے
آئینے کی طرح تھا میں شفاف و آبدار
گدلا دیا ہے چشم ہوسناک نے مجھے
خوشبو سا میں غلاف کے اندر مقیم تھا
اور کھو دیا ہے سینۂ صد چاک نے مجھے
اپنے سوا جہاں میں کوئی سُوجھتا نہیں
لا پھینکا ہے کہاں مرے ادراک نے مجھے
انجم سلیمی
No comments:
Post a Comment