Saturday 16 July 2022

کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے

 کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے

خود سے نہیں اترنے دیا چاک نے مجھے

موج ہوا میں تیرتا پھرتا تھا میں کہیں

پھر یوں ہوا کہ کھینچ لیا خاک نے مجھے

میں روشنی میں آ کے پشیماں بہت ہوا

عریاں کیا ہے عشق کی پوشاک نے مجھے

آئینے کی طرح تھا میں شفاف و آبدار

گدلا دیا ہے چشم ہوسناک نے مجھے

خوشبو سا میں غلاف کے اندر مقیم تھا

اور کھو دیا ہے سینۂ صد چاک نے مجھے

اپنے سوا جہاں میں کوئی سُوجھتا نہیں

لا پھینکا ہے کہاں مرے ادراک نے مجھے


انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment