رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح
سب کی آنکھوں میں ہے جیسے کوئی روئی ہوئی صبح
پاک جذبوں کے سمندر سے نتھارا ہوا نور
نیک سوچوں کی بلونی سے بلوئی ہوئی صبح
پھول بے رنگ، فضا زرد، پرندے خاموش
شام کی گود میں تھک ہار کے سوئی ہوئی صبح
کون دیکھے گا مِرے اشک کو سورج بنتے
کون کاٹے گا مِری آنکھ کی بوئی ہوئی صبح
یوں بھی لوٹیں گے وطن کو کبھی ہم ہجر نصیب
ڈھونڈتی ہو گی ہمیں بھی کوئی کھوئی ہوئی صبح
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment