Saturday, 16 July 2022

رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح

 رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح

سب کی آنکھوں میں ہے جیسے کوئی روئی ہوئی صبح

پاک جذبوں کے سمندر سے نتھارا ہوا نور

نیک سوچوں کی بلونی سے بلوئی ہوئی صبح

پھول بے رنگ، فضا زرد، پرندے خاموش

شام کی گود میں تھک ہار کے سوئی ہوئی صبح

کون دیکھے گا مِرے اشک کو سورج بنتے

کون کاٹے گا مِری آنکھ کی بوئی ہوئی صبح

یوں بھی لوٹیں گے وطن کو کبھی ہم ہجر نصیب

ڈھونڈتی ہو گی ہمیں بھی کوئی کھوئی ہوئی صبح


افتخار بخاری

No comments:

Post a Comment