خواہشِ وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خود کو اک شخص کے امکان میں رکھا ہوا ہے
حوصلہ پڑتا نہیں، کیسے اٹھاؤں اس کو؟
ہجر کا دُکھ بھی تو سامان میں رکھا ہوا ہے
دیکھنے والے بھی حیران ہوئے جاتے ہیں
دل نے ہر زخم نمک دان میں رکھا ہوا ہے
تتلیاں پھول سمجھتے ہوئے آ جاتی ہیں
اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
اک پرستان میں ٹھہرایا ہے اس عشق نے اور
دوسرے شخص کو ملتان میں رکھا ہوا ہے
آتے جاتے ہوئے دل اس کے تصور میں رہے
ہجر اس واسطے دالان میں رکھا ہوا ہے
اور تو کچھ بھی نہیں اس میں فضیلت ایسی
اک تجسس ہے جو انسان میں رکھا ہوا ہے
محمد علی ایاز
No comments:
Post a Comment