Friday, 1 July 2022

اٹھتی ہوئی کہیں پہ نگہ ناز کی طرح

 اٹھتی ہوئی کہیں پہ نگہ ناز کی طرح

میں خود پہ کھل رہی ہوں کسی راز کی طرح

مجھ کو مِری ہی ذات کا ادراک یوں ہوا

قرنوں کے گمشدہ کسی ہمراز کی طرح

آنکھوں سے اتری دل میں مِرے حیرت سبو

یہ سوزِ جاں بنی تو بجی ساز کی طرح

شوقِ خرامِ آرزو کو بال و پر ملے

موجِ خبر پہ سوچ کی پرواز کی طرح

دیکھا ہے زندگی کو بہت ہی قریب سے

ہر انتہا کو نکتۂ آغاز کی طرح

منزل پہ آ گئی ہوں مگر بھولتا نہیں

ملنا غبارِ راہ کا اعزاز کی طرح

میرے خدا تو غلغلۂ کائنات میں

مجھ کو سنائی دے کبھی آواز کی طرح


ثمینہ چیمہ

No comments:

Post a Comment