اٹھتی ہوئی کہیں پہ نگہ ناز کی طرح
میں خود پہ کھل رہی ہوں کسی راز کی طرح
مجھ کو مِری ہی ذات کا ادراک یوں ہوا
قرنوں کے گمشدہ کسی ہمراز کی طرح
آنکھوں سے اتری دل میں مِرے حیرت سبو
یہ سوزِ جاں بنی تو بجی ساز کی طرح
شوقِ خرامِ آرزو کو بال و پر ملے
موجِ خبر پہ سوچ کی پرواز کی طرح
دیکھا ہے زندگی کو بہت ہی قریب سے
ہر انتہا کو نکتۂ آغاز کی طرح
منزل پہ آ گئی ہوں مگر بھولتا نہیں
ملنا غبارِ راہ کا اعزاز کی طرح
میرے خدا تو غلغلۂ کائنات میں
مجھ کو سنائی دے کبھی آواز کی طرح
ثمینہ چیمہ
No comments:
Post a Comment