Friday, 15 July 2022

وحشت کے سدباب کا کچھ حل نکال دوست

 وحشت کے سدِباب کا کچھ حل نکال دوست

رسی کو صرف دیکھ لے اور بَل نکال دوست

کردار ٹِک نہیں رہے منزل کے خوف سے 

ناٹک کے اختتام سے مقتل نکال دوست

چابی کا کام اس جگہ کرتی ہیں چُٹکیاں 

میں ہو گیا ہوں تجھ میں مقفل، نکال دوست

وہ پَل کہ جس میں مل رہے، پتھر اور آئینہ 

البم میں ڈھونڈ کر ذرا، وہ پَل نکال دوست

آنکھیں دِکھا رہی ہے چراغوں کو تیرگی

اپنے رُخِ جمال کی مشعل نکال دوست

دل کے نگر میں چاہتا ہے گر تُو امن و چین

ویسی کو اس جگہ سے، مکمل نکال دوست


اویس احمد ویسی

No comments:

Post a Comment