جاگتے رہنا
گلی میں لالٹینیں لے کے پھرتے رتجگے
لاٹھی بجاتے ہیں
تو اس لاٹھی کی ٹھک ٹھک سے
مِرے سپنے بھی چکنا چُور ہوتے ہیں
میں ان کی کرچیاں پلکوں سے چُنتا ہوں
تو اک بوڑھی صدا
چُپکے سے میرے کان میں
لفظوں کا سیسہ ڈال دیتی ہے
تو سناٹوں کے گنبد سے بھی
یہ آواز آتی ہے
"جاگتے رہنا"
میں سونے کے عمل سے پیشتر ہی
جاگ جاتا ہوں
مِری آنکھوں کے کویّوں سے ٹپکتی سُرخیاں
سرگوشیوں میں
نیند سے بوجھل پپوٹوں کو یہ کہتی ہیں
ہمیں ہی جاگنا ہے تو
یہ پہریدار اپنی نیند کیوں برباد کرتا ہے
سعید دوشی
No comments:
Post a Comment